EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی
وسعتیں ان میں وہی لاتے ہیں ویرانوں کی

مختار صدیقی




عبرت آباد بھی دل ہوتے ہیں انسانوں کے
داد ملتی بھی نہیں خوں شدہ ارمانوں کی

مختار صدیقی




جن خیالوں کے الٹ پھیر میں الجھیں سانسیں
ان میں کچھ اور بھی سانسوں کا اضافہ کر لیں

مختار صدیقی




کبھی فاصلوں کی مسافتوں پہ عبور ہو تو یہ کہہ سکوں
مرا جرم حسرت قرب ہے تو یہی کمی یہاں سب میں ہے

مختار صدیقی




کیا کیا پکاریں سسکتی دیکھیں لفظوں کے زندانوں میں
چپ ہی کی تلقین کرے ہے غیرت مند ضمیر ہمیں

مختار صدیقی




میں تو ہر دھوپ میں سایوں کا رہا ہوں جویا
مجھ سے لکھوائی سرابوں کی کہانی تم نے

مختار صدیقی




میری آنکھوں ہی میں تھے ان کہے پہلو اس کے
وہ جو اک بات سنی میری زبانی تم نے

مختار صدیقی