ترے قریب بھی دل کچھ بجھا سا رہتا ہے
غم فراق کا کھٹکا لگا سا رہتا ہے
نہ جانے کب نگہ باغباں بدل جائے
ہر آن پھولوں کو دھڑکا لگا سا رہتا ہے
ہزاروں چاند ستارے نکل کے ڈوب گئے
نگر میں دل کے سدا جھٹپٹا سا رہتا ہے
تمہارے دم سے ہیں تنہائیاں بھی بزم نشاط
تمہاری یادوں کا اک جمگھٹا سا رہتا ہے
وہ اک نگاہ کہ مفہوم جس کے لاکھوں ہیں
اسی نگاہ کا اک آسرا سا رہتا ہے
تمہارے عشق نے ممتازؔ کر دیا دل کو
یہ سب سے مل کے بھی سب سے جدا سا رہتا ہے
غزل
ترے قریب بھی دل کچھ بجھا سا رہتا ہے
ممتاز میرزا