EN हिंदी
یوں یہ بدلی کالی کالی جائے گی | شیح شیری
yun ye badli kali kali jaegi

غزل

یوں یہ بدلی کالی کالی جائے گی

مبارک عظیم آبادی

;

یوں یہ بدلی کالی کالی جائے گی
پاک بازوں میں بھی ڈھالی جائے گی

توبہ کی رندوں میں گنجائش کہاں
جب یہ آئے گی نکالی جائے گی

کچھ بلانوش آ گئے بھٹی میں شیخ
تیری بوتل آج خالی جائے گی

پھول کیا ڈالوگے تربت پر مری
خاک بھی تم سے نہ ڈالی جائے گی

آئے بھی تو وہ مبارکؔ آئے کیا
جانے کی تمہید ڈالی جائے گی