دامن اشکوں سے تر کریں کیوں کر
راز کو مشتہر کریں کیوں کر
مبارک عظیم آبادی
دل لگاتے ہی تو کہہ دیتی ہیں آنکھیں سب کچھ
ایسے کاموں کے بھی آغاز کہیں چھپتے ہیں
مبارک عظیم آبادی
دل میں آنے کے مبارکؔ ہیں ہزاروں رستے
ہم بتائیں اسے راہیں کوئی ہم سے پوچھے
مبارک عظیم آبادی
دن بھی ہے رات بھی ہے صبح بھی ہے شام بھی ہے
اتنے وقتوں میں کوئی وقت ملاقات بھی ہے
مبارک عظیم آبادی
گئی بہار مگر اپنی بے خودی ہے وہی
سمجھ رہا ہوں کہ اب تک بہار باقی ہے
مبارک عظیم آبادی
ہنسی ہے دل لگی ہے قہقہے ہیں
تمہاری انجمن کا پوچھنا کیا
مبارک عظیم آبادی
ہم بھی دیوانے ہیں وحشت میں نکل جائیں گے
نجد اک دشت ہے کچھ قیس کی جاگیر نہیں
مبارک عظیم آبادی

