ہوا باندھتے ہیں جو حضرت جناں کی
گلی میں حسینوں کی آئے گئے ہیں
مبارک عظیم آبادی
ہزاروں مے کدے سر پر لیے ہیں
یہ بادل ہیں بڑے سامان والے
مبارک عظیم آبادی
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان اب کہاں
کافر بنا گئی تری کافر نظر مجھے
مبارک عظیم آبادی
اک مرا سر کہ قدم بوسی کی حسرت اس کو
اک تری زلف کہ قدموں سے لگی رہتی ہے
مبارک عظیم آبادی
اک تری بات کہ جس بات کی تردید محال
اک مرا خواب کہ جس خواب کی تعبیر نہیں
مبارک عظیم آبادی
اس بھری محفل میں ہم سے داور محشر نہ پوچھ
ہم کہیں گے تجھ سے اپنی داستاں سب سے الگ
مبارک عظیم آبادی
جاں نثاران محبت میں نہ ہو اپنا شمار
امتحاں اس لیے ظالم نے ہمارا نہ کیا
مبارک عظیم آبادی

