EN हिंदी
کیوں کیا کرتے ہیں آہیں کوئی ہم سے پوچھے | شیح شیری
kyun kiya karte hain aahen koi humse puchhe

غزل

کیوں کیا کرتے ہیں آہیں کوئی ہم سے پوچھے

مبارک عظیم آبادی

;

کیوں کیا کرتے ہیں آہیں کوئی ہم سے پوچھے
کر گئیں کیا وہ نگاہیں کوئی ہم سے پوچھے

لے کے دل ان کے مکرنے کی ادا کیا کہیے
کیوں پلٹتی ہیں نگاہیں کوئی ہم سے پوچھے

دوست دشمن کو بنانا کوئی تم سے سیکھے
دوستی کیسی نباہیں کوئی ہم سے پوچھے

نیچی نظریں کیے آتے ہو جہاں سے سمجھے
جھینپتی کیوں ہیں نگاہیں کوئی ہم سے پوچھے

دل میں آنے کے مبارکؔ ہیں ہزاروں رستے
ہم بتائیں اسے راہیں کوئی ہم سے پوچھے