EN हिंदी
آہٹیں سن کر ہی مر جاتی ہے صحراؤں کی خاک | شیح شیری
aahaTen sun kar hi mar jati hai sahraon ki KHak

غزل

آہٹیں سن کر ہی مر جاتی ہے صحراؤں کی خاک

مصداق اعظمی

;

آہٹیں سن کر ہی مر جاتی ہے صحراؤں کی خاک
اب ترے وحشی سے ڈر جاتی ہے صحراؤں کی خاک

اس جنون عشق کی ٹھوکر میں آ جانے کے بعد
آسمانوں میں بکھر جاتی ہے صحراؤں کی خاک

خوش نما منظر بھی سب دھندھلے نظر آتے ہیں یار
جب دلوں میں بھی اتر جاتی ہے صحراؤں کی خاک

کون خیمہ زن کہاں ہے آئیے ڈھونڈیں یہاں
پل میں سب کچھ خاک کر جاتی ہے صحراؤں کی خاک

انگلیاں تیری پکڑ کر سن لے اے باد صبا
گلشنوں میں بھی اتر جاتی ہے صحراؤں کی خاک

پاؤں پھیلاتی ہے یہ صحرا نوردی جب مری
ہر طرف مصداقؔ بھر جاتی ہے صحراؤں کی خاک