نہیں ہے مجھ کو اے جمشید تیرے جام سے کام
جہاں نما ہے مجھے اپنے خوش خرام سے کام
سبھی تو دین و دنیا کا کام کرتے ہیں
مجھے نہ دین نہ دنیا کے انتظام سے کام
حرم میں شیخ ہیں اور دیر میں برہمن ہیں
ہمیں نہیں ہے انہوں کے کوئی کلام سے کام
کنشت دل میں ہے اک جوش بت پرستی کا
مجھے بتوں کی ہے خدمت میں رام رام سے کام
غرض نہ کفر سے کچھ ہے نہ دین سے مطلب
نہ ہے حلال سے نا ہے ہمیں حرام سے کام
صنم کے روبرو رہنا مجھے غنیمت ہے
نہ شرم ننگ سے کچھ ہے مجھے نہ نام سے کام
خفا بھی ہو کے جو دیکھے تو سر نثار کروں
اگر نہ دیکھے تو پھر بھی ہے اک سلام سے کام
سنا سنا کے جو کرتا ہے وعظ حسن بیاں
پڑا ہے تجھ کو ہمیشہ یہ فہم خام سے کام
تو اپنے بکنے سے مسکیںؔ نہ ہم سے دور ہوا
تجھے تو بکنے سے مجھ کو ہے اپنے کام سے کام

غزل
نہیں ہے مجھ کو اے جمشید تیرے جام سے کام
مسکین شاہ