EN हिंदी
صبح کا منظر ہے لیکن گل کوئی تازہ نہیں | شیح شیری
subh ka manzar hai lekin gul koi taza nahin

غزل

صبح کا منظر ہے لیکن گل کوئی تازہ نہیں

مصداق اعظمی

;

صبح کا منظر ہے لیکن گل کوئی تازہ نہیں
روئے گلشن پر کہیں بھی اوس کا غازہ نہیں

ٹوٹ کر ہم چاہنے والوں سے جب بچھڑیں گے آپ
ہم ہی ہم بکھریں گے لیکن مثل شیرازہ نہیں

غار والوں کی طرح نکلا ہے وہ کمرے سے آج
اس کو اس دنیا کی تبدیلی کا اندازہ نہیں

کچھ نہ کچھ کہتے تو رہتے ہیں یہاں ہم لوگ جی
پھر بھی اس شہر بتاں میں کئی آوازہ نہیں

اس عمارت کے مقدر کی لکیروں میں کہیں
کھڑکیاں تو ہیں مگر مصداقؔ دروازہ نہیں