تعلق کی کڑی ٹوٹی نہیں ہے
امید زندگی ٹوٹی نہیں ہے
فقط ملنا ملانا کم ہوا ہے
ہماری دوستی ٹوٹی نہیں ہے
بڑی آندھی چلی ہے اس چمن میں
مگر کوئی کلی ٹوٹی نہیں ہے
کمندیں پھینکیے عقل و خرد کی
فصیل آگہی ٹوٹی نہیں ہے
پرانے بانس کے پل کی ہمارے
کوئی بھی آس ابھی ٹوٹی نہیں ہے
سنا ہے باوجود زور ہم نے
دھنک راون سے بھی ٹوٹی نہیں ہے

غزل
تعلق کی کڑی ٹوٹی نہیں ہے
مصداق اعظمی