نہ کعبہ ہی تجلی گاہ ٹھہرایا نہ بت خانہ
لڑانا خوب آتا ہے تمہیں شیخ و برہمن کو
مرزا مائل دہلوی
تلخی تمہارے وعظ میں ہے واعظو مگر
دیکھو تو کس مزے کی ہے تلخی شراب میں
مرزا مائل دہلوی
توبہ کے ٹوٹتے کا ہے مائلؔ ملال کیوں
ایسی تو ہوتی رہتی ہے اکثر شباب میں
مرزا مائل دہلوی
تمہیں سمجھائیں تو کیا ہم کہ شیخ وقت ہو مائل
تم اپنے آپ کو دیکھو اور اک طفل برہمن کو
مرزا مائل دہلوی
آشنا کوئی نظر آتا نہیں یاں اے ہوسؔ
کس کو میں اپنا انیس کنج تنہائی کروں
مرزا محمد تقی ہوسؔ
اے آفتاب ہادیٔ کوئے نگار ہو
آئے بھلا کبھی تو ہمارے بھی کام دن
مرزا محمد تقی ہوسؔ
دیکھیں کیا اب کے اسیری ہمیں دکھلاتی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ پھر فصل بہار آتی ہے
مرزا محمد تقی ہوسؔ

