EN हिंदी
پردہ الٹ کے اس نے جو چہرا دکھا دیا | شیح شیری
parda ulaT ke usne jo chehra dikha diya

غزل

پردہ الٹ کے اس نے جو چہرا دکھا دیا

مرزارضا برق ؔ

;

پردہ الٹ کے اس نے جو چہرا دکھا دیا
رنگ رخ بہار گلستاں اڑا دیا

وحشت میں قید دیر و حرم دل سے اٹھ گئی
حقا کہ مجھ کو عشق نے رستا بتا دیا

پھر جھانک تاک آنکھوں نے میری شروع کی
پھر غم کا میرے نالوں نے لگا لگا دیا

انگڑائی دونوں ہاتھ اٹھا کر جو اس نے لی
پر لگ گئے پروں نے پری کو اڑا دیا

سیکھی ہے اس جوان نے پیر فلک کی چال
ہر پھر کے مجھ کو خاک میں آخر ملا دیا

وہ سیر کو جو آئے تو صدقہ میں ان کو برقؔ
ہر ایک گل نے طائر نکہت اڑا دیا