EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کہنا ہی مرا کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
یہ بھی تمہیں دھوکا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

میلہ رام وفاؔ




راتیں عیش و عشرت کی دن دکھ درد مصیبت کے
آتی آتی آتی ہیں جاتے جاتے جاتے ہیں

میلہ رام وفاؔ




تم بھی کرو گے جبر شب و روز اس قدر
ہم بھی کریں گے صبر مگر اختیار تک

میلہ رام وفاؔ




آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے
گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے

معراج فیض آبادی




جو کہہ رہے تھے کہ جینا محال ہے تم بن
بچھڑ کے مجھ سے وہ دو دن اداس بھی نہ رہے

معراج فیض آبادی




پیاس کہتی ہے چلو ریت نچوڑی جائے
اپنے حصے میں سمندر نہیں آنے والا

معراج فیض آبادی




یوں ہوا پھر بند کر لیں اس نے آنکھیں ایک دن
وہ سمجھ لیتا تھا دل کا حال چہرہ دیکھ کر

معراج فیض آبادی