کیا کہیں وعدوں پہ یقیں ہم کیوں لاتے جاتے ہیں
دھوکا کھانا پڑتا ہے دھوکا کھاتے جاتے ہیں
طاقت ضبط غم دل سے رخصت ہوتی جاتی ہے
ارماں نالے بن بن کر لب پر آتے جاتے ہیں
راتیں عیش و عشرت کی دن دکھ درد مصیبت کے
آتی آتی آتی ہیں جاتے جاتے جاتے ہیں
آندھیوں اور بگولوں سے کم نہیں تیرے دیوانے
خاک اڑاتے آتے ہیں خاک اڑاتے جاتے ہیں
آج سحر سے غیر بہت حال ترے بیمار کا ہے
افسردہ افسردہ ہے لوگ جو آتے جاتے ہیں
مے خانہ بھی پڑتا ہے شیخ کو راہ مسجد میں
مے خانہ بھی آپ اکثر آتے جاتے جاتے ہیں
غیر تو ہیں پھر غیر وفاؔ غیروں کا شکوہ ہی کیا
بدحالی میں اپنے بھی آنکھ چراتے جاتے ہیں
غزل
کیا کہیں وعدوں پہ یقیں ہم کیوں لاتے جاتے ہیں
میلہ رام وفاؔ