EN हिंदी
ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے | شیح شیری
hum ghazal mein tera charcha nahin hone dete

غزل

ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے

معراج فیض آبادی

;

ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے
تیری یادوں کو بھی رسوا نہیں ہونے دیتے

کچھ تو ہم خود بھی نہیں چاہتے شہرت اپنی
اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے

عظمتیں اپنے چراغوں کی بچانے کے لیے
ہم کسی گھر میں اجالا نہیں ہونے دیتے

آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے
گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے

ذکر کرتے ہیں ترا نام نہیں لیتے ہیں
ہم سمندر کو جزیرہ نہیں ہونے دیتے

مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے