EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

پھر کیا ہے جو یہ رات ڈھلی جاتی ہے آخر
وہ وعدہ فراموش ہو ایسا بھی نہیں ہے

معراج لکھنوی




آنکھیں ہیں مگر خواب سے محروم ہیں مدحتؔ
تصویر کا رشتہ نہیں رنگوں سے ذرا بھی

مدحت الاختر




ہم کو اسی دیار کی مٹی ہوئی عزیز
نقشے میں جس کا نام پتہ اب نہیں رہا

مدحت الاختر




جانے والے مجھے کچھ اپنی نشانی دے جا
روح پیاسی نہ رہے آنکھ میں پانی دے جا

مدحت الاختر




جسم اس کی گود میں ہو روح تیرے رو بہ رو
فاحشہ کے گرم بستر پر ریاکاری کروں

مدحت الاختر




خوابوں کی تجارت میں یہی ایک کمی ہے
چلتی ہے دکاں خوب کمائی نہیں دیتی

مدحت الاختر




کوچ کرنے کی گھڑی ہے مگر اے ہم سفرو
ہم ادھر جا نہیں سکتے جدھر سب گئے ہیں

مدحت الاختر