جمع کر کے درد سارے تو نے پیدا دل کیا
کہہ تو اے دست قضا اس سے کیا حاصل کیا
میرضیا الدین ضیا
کون سے زخم کا کھلا ٹانکا
آج پھر دل میں درد ہوتا ہے
میرضیا الدین ضیا
رسوائیوں کی اپنی مجھے کچھ ہوس نہیں
ناصح پہ کیا کروں کہ مرا دل پہ بس نہیں
میرضیا الدین ضیا
غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا کیا اب تم سے بیان کریں
غم بھی راس آیا دل کو اور ہی کچھ سامان کریں
میراجی
میرؔ ملے تھے میراجیؔ سے باتوں سے ہم جان گئے
فیض کا چشمہ جاری ہے حفظ ان کا بھی دیوان کریں
میراجی
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
میراجی
آخر گل اپنی صرف در مے کدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
مرزا جواں بخت جہاں دار

