EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جمع کر کے درد سارے تو نے پیدا دل کیا
کہہ تو اے دست قضا اس سے کیا حاصل کیا

میرضیا الدین ضیا




کون سے زخم کا کھلا ٹانکا
آج پھر دل میں درد ہوتا ہے

میرضیا الدین ضیا




رسوائیوں کی اپنی مجھے کچھ ہوس نہیں
ناصح پہ کیا کروں کہ مرا دل پہ بس نہیں

میرضیا الدین ضیا




غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا کیا اب تم سے بیان کریں
غم بھی راس آیا دل کو اور ہی کچھ سامان کریں

میراجی




میرؔ ملے تھے میراجیؔ سے باتوں سے ہم جان گئے
فیض کا چشمہ جاری ہے حفظ ان کا بھی دیوان کریں

میراجی




نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا

میراجی




آخر گل اپنی صرف در مے کدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

مرزا جواں بخت جہاں دار