کہنا ہی مرا کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
یہ بھی تمہیں دھوکا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
یہ بات کہ کہنا ہے مجھے تم سے بہت کچھ
اس بات سے پیدا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
اپنی ہی کہے جاتا ہے اے ناصح نا فہم
تو کچھ نہیں سنتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
رہتا ہے وہ بت شکوۂ اغیار پہ خاموش
کہتا ہے تو کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کہلاؤ نہ کچھ غیر کی تعریف میں مجھ سے
سمجھو تو یہ تھوڑا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کہنے کا تو اپنے ہے وفاؔ آپ بھی قائل
کہنے کو یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
غزل
کہنا ہی مرا کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
میلہ رام وفاؔ