EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہے یہی شوق شہادت کا اگر دل میں تو عشق
لے ہی پہنچے گا ہمیں بھی تری شمشیر تلک

میر حسن




ہم کو بھی دشمنی سے ترے کام کچھ نہیں
تجھ کو اگر ہمارے نہیں پیار سے غرض

میر حسن




ہم میں ہی عالم اکبر ہوئے گو جرم صغیر
مظہر جلوۂ حق حضرت انساں ہیں ہم

میر حسن




ہو ضبط نالہ کیونکہ دل ناتواں میں آہ
آتش کہیں چھپائے سے چھپتی ہے خس کے بیچ

میر حسن




اس کو امید نہیں ہے کبھی پھر بسنے کے
اور ویرانوں سے اس دل کا ہے ویرانہ جدا

میر حسن




عشق کا اب مرتبہ پہنچا مقابل حسن کے
بن گئے بت ہم بھی آخر اس صنم کی یاد میں

میر حسن




اتنے آنسو تو نہ تھے دیدۂ تر کے آگے
اب تو پانی ہی بھرا رہتا ہے گھر کے آگے

میر حسن