EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

فرقت کی شب میں آج کی پھر کیا جلاویں گے
دل کا دیا تھا ایک سو کل ہی جلا دیا

میر حسن




غیر کہتے ہیں کہ ہم بیٹھنے دیویں گے نہ یاں
اب تو اس ضد سے جو کچھ ہووے سو ہو بیٹھے ہم

میر حسن




غیر کو تم نہ آنکھ بھر دیکھو
کیا غضب کرتے ہو ادھر دیکھو

میر حسن




غمزے نے لے کے دل کو ادا کے کیا سپرد
غمزے سے دل کو لیں کہ ادا سے طلب کریں

میر حسن




گر یہی تیرے اشارے ہیں تو مجلس سے تری
کوئی نہ کوئی آ کے اٹھا دیوے گا گو بیٹھے ہم

میر حسن




گو بھلے سب ہیں اور میں ہوں برا
کیا بھلوں میں برا نہیں ہوتا

میر حسن




گزری ہے رات مجھ میں اور دل میں طرفہ صحبت
ایدھر تو میں نے کی آہ اودھر سے وہ کراہا

میر حسن