EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بس گیا جب سے یار آنکھوں میں
تب سے پھولی بہار آنکھوں میں

میر حسن




بت خانۂ دل میرا کعبے کے برابر ہے
واجب ہے تجھے جاناں اکرام مرے دل کا

میر حسن




چاہا تھا غرض میں نے عشق ایسے ہی دلبر کا
گر مجھ پہ بہت گزرا غم اس میں تو کم گزرا

میر حسن




دیر و کعبہ ہی کو جانا کچھ نہیں لازم غرض
جس طرف پائی خبر اس کی ادھر کو اٹھ گئے

میر حسن




درد کرتا ہے تپ عشق کی شدت سے مرا
سر جدا سینہ جدا قلب جدا شانہ جدا

میر حسن




دروازہ گو کھلا ہے اجابت کا پر حسنؔ
ہم کس کس آرزو کو خدا سے طلب کریں

میر حسن




دکھا دیں گے چالاکی ہاتھوں کی ناصح
جو ثابت جنوں سے گریباں رہے گا

میر حسن