جگر سوختہ ہیں اور دل بریاں ہیں ہم
شعلہ کی طرح سدا دیدۂ گریاں ہیں ہم
متصل لخت جگر کرتے ہیں آنکھوں سے سدا
آہ کس عاشق غم دیدہ کی مژگاں ہیں ہم
کبھی ہنستے ہیں کبھی روتے ہیں جلتے ہیں کبھی
گل ہیں شبنم ہیں کہ یا آتش سوزاں ہیں ہم
ہم میں ہی عالم اکبر ہوئے گو جرم صغیر
مظہر جلوۂ حق حضرت انساں ہیں ہم
دہر پر شور ہے ہاتھوں سے ہمارے اے آہ
آفرینش میں مگر نالہ و افغاں ہیں ہم
فکر جمعیت دل ہم کو کہاں آہ حسنؔ
خاطر آشفتۂ گیسوئے پریشاں ہیں ہم
غزل
جگر سوختہ ہیں اور دل بریاں ہیں ہم
میر حسن