نہ باغ سے غرض ہے نہ گل زار سے غرض
ہے بھی جو کچھ غرض تو ہمیں یار سے غرض
پھرتے ہیں ہم تو دید کو تیرے ہی در پہ کچھ
رستے سے ہے نہ کام نہ بازار سے غرض
کہنے سے کیا کسی کے کوئی کچھ کہا کرے
ہم کو تو ایک اس کی ہے گفتار سے غرض
جی ان دنوں میں آپ سے بھی ہے خفا ولیک
بیزار جو نہیں ہے تو دل دار سے غرض
پھر پھر کے آج پوچھتے ہو دل کا حال کیوں
ہے خیر تم کو کیا دل بیمار سے غرض
آنے کا وعدہ کر کہ نہ کر ہم کو اب ترے
اقرار سے نہ کام نہ انکار سے غرض
ہم کو بھی دشمنی سے ترے کام کچھ نہیں
تجھ کو اگر ہمارے نہیں پیار سے غرض
سر رشتہ جس کے ہاتھ لگا عشق کا اسے
تسبیح سے نہ شوق نہ زنار سے غرض
دیں دار جو رکھے نہ حسنؔ مجھ سے کام تو
کافر ہوں میں بھی رکھوں جو دیں دار سے غرض
غزل
نہ باغ سے غرض ہے نہ گل زار سے غرض
میر حسن