اتنے آنسو تو نہ تھے دیدۂ تر کے آگے
اب تو پانی ہی بھرا رہتا ہے گھر کے آگے
دم بدم مجھ کو تصور ہے اسی دلبر کا
رات دن پھرتا ہے میری وہ نظر کے آگے
ہیں یہ اے جان مرے دل سے مجھے اپنے عزیز
تیرے داغوں کو میں رکھتا ہوں جگر کے آگے
گرمی اپنی کو فراموش کریں مہر وشاں
سرد ہو جائیں سب اس رشک قمر کے آگے
باد تندی سے میاں تیری مجھے حیرت ہے
کیونکہ رکھتا ہے طپانچوں کو کمر کے آگے
تیرے دانتوں سے میں تشبیہ نہ دوں گوہر کو
پوت کو قدر نہیں سلک گہر کے آگے
زور سے کام نکلتا نہیں بے زر کے دئے
زر بھی حربہ ہے ترا ایک بشر کے آگے
زر اگر برسر فولاد نہیں نرم شود
زور کا زور دھرا رہتا ہے زر کے آگے
کس کو کہتا ہے میاں یاں سے سرک یاں سے سرک
کوئی بیٹھا نہیں آ کر ترے در کے آگے
یہ تو مجلس ہے جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
کیوں جگہ بدلے کوئی کاہے کو سرکے آگے
اب کہاں جائے حسنؔ ہاتھوں سے تیرے ظالم
رکھ لیا تو نے اسے تیغ و سپر کے آگے
غزل
اتنے آنسو تو نہ تھے دیدۂ تر کے آگے
میر حسن