EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اظہار خموشی میں ہے سو طرح کی فریاد
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

میر حسن




جان و دل ہیں اداس سے میرے
اٹھ گیا کون پاس سے میرے

میر حسن




جب دیکھو ہوں اس کو تو مجھے آتا ہے یہ رشک
کس کس کا یہ منظور نظر ہووے گا یا رب

میر حسن




جب لگے ہوں گے جدا حضرت دل ہم نے کہا
پھر بھی ملئے گا کبھی ہم سے کہا یا قسمت

میر حسن




جب سے جدا ہوا ہے وہ شوخ تب سے مجھ کو
نت آہ آہ کرنا اور زار زار رونا

میر حسن




جب تلک زر ہے تو سب کوئی ہے پھر کوئی نہیں
سچ ہے مکھی بھی رہے ہے شکر و شیر تلک

میر حسن




جیسے کہ آج وصل ہوا کیا نہ چاہیئے
اک دن بھی آوے ایسا اگر سو برس کے بیچ

میر حسن