آن کر غم کدۂ دہر میں جو بیٹھے ہم
شمع ساں اپنے تئیں آپ ہی رو بیٹھے ہم
عشق کے ہاتھ سے کشتیٔ شکستہ کی طرح
آپ اپنے تئیں رو رو کے ڈبو بیٹھے ہم
گر یہی تیرے اشارے ہیں تو مجلس سے تری
کوئی نہ کوئی آ کے اٹھا دیوے گا گو بیٹھے ہم
تم جو اٹھنے کو ہوئے تھے تو چلے تھے ہم بھی
اب جو یوں آپ کی مرضی ہے تو لو بیٹھے ہم
سینہ خالی نہیں ہوتا ہے نہ تھمتے ہیں اشک
کب سے روتے ہیں دل خوں شدہ کو بیٹھے ہم
غیر کہتے ہیں کہ ہم بیٹھنے دیویں گے نہ یاں
اب تو اس ضد سے جو کچھ ہووے سو ہو بیٹھے ہم
اشک آنکھوں سے تو معدوم ہوئے تھے کد کے
ہاتھ اب گریۂ خونی سے بھی دھو بیٹھے ہم
اور تو کچھ نہیں یاں اتنا خفا ہوتے ہو کیوں
کیا ہوا آپ کے نزدیک جو ہو بیٹھے ہم
آرزو دل کی بر آئی نہ حسنؔ وصل میں اور
لذت ہجر کو بھی مفت میں کھو بیٹھے ہم
غزل
آن کر غم کدۂ دہر میں جو بیٹھے ہم
میر حسن