نہ ہم دعا سے اب نہ وفا سے طلب کریں
عشق بتاں میں صبر خدا سے طلب کریں
دل خاک ہو گیا ہے تری رہ گزار میں
گر جا سکیں وہاں تو صبا سے طلب کریں
آخر خوشی تو عشق سے حاصل نہ کچھ ہوئی
ہم اب غم و الم ہی بلا سے طلب کریں
غمزے نے لے کے دل کو ادا کے کیا سپرد
غمزے سے دل کو لیں کہ ادا سے طلب کریں
دولت جو فقر کی ہے سو ہے اپنے دل کے پاس
وہ چیز یہ نہیں کہ گدا سے طلب کریں
دروازہ گو کھلا ہے اجابت کا پر حسنؔ
ہم کس کس آرزو کو خدا سے طلب کریں
غزل
نہ ہم دعا سے اب نہ وفا سے طلب کریں
میر حسن