خود کو پوشیدہ نہ رکھو بند کلیوں کی طرح
پھول کہتے ہیں تمہیں سب لوگ تو مہکا کرو
منظر بھوپالی
کوئی تخلیق ہو خون جگر سے جنم لیتی ہے
کہانی لکھ نہیں سکتے کہانی مانگنے والے
منظر بھوپالی
سفر کے بیچ یہ کیسا بدل گیا موسم
کہ پھر کسی نے کسی کی طرف نہیں دیکھا
منظر بھوپالی
انہیں پہ سارے مصائب کا بوجھ رکھا ہے
جو تیرے شہر میں ایمان لے کے آئے ہیں
منظر بھوپالی
یہ اشک تیرے مرے رائیگاں نہ جائیں گے
انہیں چراغوں سے روشن محبتیں ہوں گی
منظر بھوپالی
یہ کرداروں کے گندے آئنے اپنے ہی گھر رکھئے
یہاں پر کون کتنا پارسا ہے ہم سمجھتے ہیں
منظر بھوپالی
آپ کی یاد میں روؤں بھی نہ میں راتوں کو
ہوں تو مجبور مگر اتنا بھی مجبور نہیں
منظر لکھنوی

