ہم اپنے آپ کی پہچان لے کے آئے ہیں
نئے سخن نئے امکان لے کے آئے ہیں
ہوا نے وار کیا تو جواب پائے گی
کہ ہم چراغ بھی طوفان لے کے آئے ہیں
چراغ قرب سے کر دیجئے انہیں روشن
بجھے بجھے سے کچھ ارمان لے کے آئے ہیں
جواب دے نہ سکے گا ہماری باتوں کا
کہ آپ آئنہ حیران لے کے آئے ہیں
ان آنسوؤں کا کوئی قدردان مل جائے
کہ ہم بھی میرؔ کا دیوان لے کے آئے ہیں
ہمارے پاس فقط دھوپ ہے خیالوں کی
جھلستے خوابوں کی دکان لے کے آئے ہیں
یہ زخم دل نہیں احسان کی نشانی ہے
ہم اس نگاہ کا احسان لے کے آئے ہیں
جو پارسا ہو تو کیوں امتحاں سے ڈرتے ہو
ہم اعتبار کا میزان لے کے آئے ہیں
انہیں پہ سارے مصائب کا بوجھ رکھا ہے
جو تیرے شہر میں ایمان لے کے آئے ہیں

غزل
ہم اپنے آپ کی پہچان لے کے آئے ہیں
منظر بھوپالی