کسی بھی گھر میں سہی روشنی تو ہے ہم سے
نمود صبح سے پہلے تو مت بجھاؤ ہمیں
منظر ایوبی
کسی لب پہ حرف ستم تو ہو کوئی دکھ سپرد قلم تو ہو
یہ بجا کہ شہر ملال میں کوئی فیضؔ ہے کوئی میرؔ ہے
منظر ایوبی
آندھیاں زور دکھائیں بھی تو کیا ہوتا ہے
گل کھلانے کا ہنر باد صبا جانتی ہے
منظر بھوپالی
آنکھ بھر آئی کسی سے جو ملاقات ہوئی
خشک موسم تھا مگر ٹوٹ کے برسات ہوئی
منظر بھوپالی
آپ ہی کی ہے عدالت آپ ہی منصف بھی ہیں
یہ تو کہیے آپ کے عیب و ہنر دیکھے گا کون
منظر بھوپالی
اب سمجھ لیتے ہیں میٹھے لفظ کی کڑواہٹیں
ہو گیا ہے زندگی کا تجربہ تھوڑا بہت
منظر بھوپالی
باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
اس لئے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے
منظر بھوپالی

