وطن نصیب کہاں اپنی قسمتیں ہوں گی
جہاں بھی جائیں گے ہم ساتھ ہجرتیں ہوں گی
کبھی تو صاحب دیوار و در بنیں گے ہم
کبھی تو سر پہ ہمارے نئی چھتیں ہوں گی
یہ اشک تیرے مرے رائیگاں نہ جائیں گے
انہیں چراغوں سے روشن محبتیں ہوں گی
تری ادا میں ہے انکار بھی اجازت بھی
جو ہم ملیں گے تو دوری نہ قربتیں ہوں گی
عمل درست کریں اپنے رہنمائے کرام
کہوں گا صاف تو سب کو شکایتیں ہوں گی
ہم ان کے سامنے سچ بولنے کے مجرم ہیں
ہمیں پہ وقت کی ساری عنایتیں ہوں گی
ہمیں تو اپنے مسائل کا حل بھی ہے درکار
تمہارے پاس تو خالی بشارتیں ہوں گی
وہاں پہ قافلے بھٹکیں گے طے ہے یہ منظرؔ
جہاں اصول سے خالی قیادتیں ہوں گی
ابھی تو قید ہیں جذبوں کی آندھیاں دل میں
ہمارا صبر جو توڑا قیامتیں ہوں گی
غزل
وطن نصیب کہاں اپنی قسمتیں ہوں گی
منظر بھوپالی