EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اب اتنا عقل سے بیگانہ ہو گیا ہوں میں
گلوں کے شکوے ستاروں سے کہہ رہا ہوں میں

منظر لکھنوی




عہد شباب رفتہ کیا عہد پر فضا تھا
جینے کا بھی مزا تھا مرنے کا بھی مزا تھا

منظر لکھنوی




اہل محشر دیکھ لوں قاتل کو تو پہچان لوں
بھولی بھالی شکل تھی اور کچھ بھلا سا نام تھا

منظر لکھنوی




اپنی بیتی نہ کہوں تیری کہانی نہ کہوں
پھر مزہ کاہے سے پیدا کروں افسانے میں

منظر لکھنوی




بہکی بہکی نگۂ ناز خدا خیر کرے
حسن میں عشق کے انداز خدا خیر کرے

منظر لکھنوی




بے خود ایسا کیا خوف شب تنہائی نے
صبح سے شمع جلا دی ترے سودائی نے

منظر لکھنوی




برا ہو عشق کا سب کچھ سمجھ رہا ہوں میں
بنا رہا ہے کوئی بن رہا ہوں دیوانہ

منظر لکھنوی