EN हिंदी
یہ کرشمہ سازیٔ عشق کی مری جان زندہ نظیر ہے | شیح شیری
ye karishma-sazi-e-ishq ki meri jaan zinda nazir hai

غزل

یہ کرشمہ سازیٔ عشق کی مری جان زندہ نظیر ہے

منظر ایوبی

;

یہ کرشمہ سازیٔ عشق کی مری جان زندہ نظیر ہے
جو فقیر تھا وہ امیر ہے جو امیر تھا وہ فقیر ہے

مری خواہشوں کی بساط پر یہ جو ایک سرخ لکیر ہے
یہی اک لکیر تو اصل میں نئے موسموں کی سفیر ہے

نہ وہ سر زمیں نہ وہ آسماں مگر آج بھی سر دشت جاں
وہی ہاتھ ہے وہی مشک ہے وہی پیاس ہے وہی تیر ہے

کسی لب پہ حرف ستم تو ہو کوئی دکھ سپرد قلم تو ہو
یہ بجا کہ شہر ملال میں کوئی فیضؔ ہے کوئی میرؔ ہے

میرے ہم سخن مرے ہم زباں بڑے خوش گماں بڑے خوش بیاں
کوئی خواہشوں کا غلام ہے کوئی زلف و رخ کا اسیر ہے

یہ عجیب رخ ہے حیات کا نہیں منزلوں سے جو آشنا
وہی راستوں کا چراغ ہے وہی قافلے کا امیر ہے