EN हिंदी
آنکھ بھر آئی کسی سے جو ملاقات ہوئی | شیح شیری
aankh bhar aai kisi se jo mulaqat hui

غزل

آنکھ بھر آئی کسی سے جو ملاقات ہوئی

منظر بھوپالی

;

آنکھ بھر آئی کسی سے جو ملاقات ہوئی
خشک موسم تھا مگر ٹوٹ کے برسات ہوئی

دن بھی ڈوبا کہ نہیں یہ مجھے معلوم نہیں
جس جگہ بجھ گئے آنکھوں کے دئے رات ہوئی

کوئی حسرت کوئی ارماں کوئی خواہش ہی نہ تھی
ایسے عالم میں مری خود سے ملاقات ہوئی

ہو گیا اپنے پڑوسی کا پڑوسی دشمن
آدمیت بھی یہاں نذر فسادات ہوئی

اسی ہونی کو تو قسمت کا لکھا کہتے ہیں
جیتنے کا جہاں موقع تھا وہیں مات ہوئی

اس طرح گزرا ہے بچپن کہ کھلونے نہ ملے
اور جوانی میں بڑھاپے سے ملاقات ہوئی