EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بتوں کو پوجنے والوں کو کیوں الزام دیتے ہو
ڈرو اس سے کہ جس نے ان کو اس قابل بنایا ہے

مخمور سعیدی




دل پہ اک غم کی گھٹا چھائی ہوئی تھی کب سے
آج ان سے جو ملے ٹوٹ کے برسات ہوئی

مخمور سعیدی




ڈوبنے والوں پر کسے دنیا نے آوازے
ساحل سے کرتی رہی طوفاں کے اندازے

مخمور سعیدی




غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں
مجھے خبر ہے میں اپنے سفر میں تنہا ہوں

مخمور سعیدی




گھر میں رہا تھا کون کہ رخصت کرے ہمیں
چوکھٹ کو الوداع کہا اور چل پڑے

مخمور سعیدی




ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا
آوارہ پرندوں کے ٹھکانے نہیں ہوتے

مخمور سعیدی




جانب کوچہ و بازار نہ دیکھا جائے
غور سے شہر کا کردار نہ دیکھا جائے

مخمور سعیدی