سن لی صدائے کوہ ندا اور چل پڑے
ہم نے کسی سے کچھ نہ کہا اور چل پڑے
سائے میں دو گھڑی بھی نہ ٹھہرے گزرتے لوگ
پیڑوں پہ اپنا نام لکھا اور چل پڑے
ٹھہری ہوئی فضا میں الجھنے لگا تھا دم
ہم نے ہوا کا گیت سنا اور چل پڑے
تاریک راستوں کا سفر سہل تھا ہمیں
روشن کیا لہو کا دیا اور چل پڑے
رخت سفر جو پاس ہمارے نہ تھا تو کیا
شوق سفر کو ساتھ لیا اور چل پڑے
گھر میں رہا تھا کون کہ رخصت کرے ہمیں
چوکھٹ کو الوداع کہا اور چل پڑے
مخمورؔ واپسی کا ارادہ نہ تھا مگر
در کو کھلا ہی چھوڑ دیا اور چل پڑے
غزل
سن لی صدائے کوہ ندا اور چل پڑے
مخمور سعیدی