لکھ کر ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے
کچھ لفظ ہیں ایسے جو پرانے نہیں ہوتے
جب چاہے کوئی پھونک دے خوابوں کے نشیمن
آنکھوں کے اجڑنے کے زمانے نہیں ہوتے
جو زخم عزیزوں نے محبت سے دئیے ہوں
وہ زخم زمانے کو دکھانے نہیں ہوتے
ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا
آوارہ پرندوں کے ٹھکانے نہیں ہوتے
بے وجہ تعلق کوئی بے نام رفاقت
جینے کے لیے کم یہ بہانے نہیں ہوتے
کہنے کو تو اس شہر میں کچھ بھی نہیں بدلا
موسم مگر اب اتنے سہانے نہیں ہوتے
سینے میں کسک بن کے بسے رہتے ہیں برسوں
لمحے جو پلٹ کر کبھی آنے نہیں ہوتے
آشفتہ سری میں ہنر حرف و نوا کیا
لفظوں میں بیاں غم کے فسانے نہیں ہوتے
مخمورؔ یہ اب کیا ہے کہ بار غم دل سے
بوجھل مرے احساس کے شانے نہیں ہوتے
غزل
لکھ کر ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے
مخمور سعیدی