EN हिंदी
اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے | شیح شیری
ab kahan ja ke ye samjhaen ki kya hota hai

غزل

اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے

مخدومؔ محی الدین

;

اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے
ایک آنسو جو سر چشم وفا ہوتا ہے

اس گزر گاہ میں اس دشت میں اے جذبۂ عشق
جز ترے کون یہاں آبلہ پا ہوتا ہے

دل کی محراب میں اک شمع جلی تھی سر شام
صبح دم ماتم ارباب وفا ہوتا ہے

دیپ جلتے ہیں دلوں میں کہ چتا جلتی ہے
اب کی دیوالی میں دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے

جب برستی ہے تری یاد کی رنگین پھوار
پھول کھلتے ہیں در مے کدہ وا ہوتا ہے