اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے
ایک آنسو جو سر چشم وفا ہوتا ہے
اس گزر گاہ میں اس دشت میں اے جذبۂ عشق
جز ترے کون یہاں آبلہ پا ہوتا ہے
دل کی محراب میں اک شمع جلی تھی سر شام
صبح دم ماتم ارباب وفا ہوتا ہے
دیپ جلتے ہیں دلوں میں کہ چتا جلتی ہے
اب کی دیوالی میں دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے
جب برستی ہے تری یاد کی رنگین پھوار
پھول کھلتے ہیں در مے کدہ وا ہوتا ہے
غزل
اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے
مخدومؔ محی الدین