وہ لالہ بدن جھیل میں اترا نہیں ورنہ
شعلے متواتر اسی پانی سے نکلتے
محفوظ الرحمان عادل
وہ مری آوارہ گردی وہ مرا دیوانہ پن
وہ مری تعظیم میں دیوار و در کا جاگنا
محفوظ الرحمان عادل
یہ بھی ہے مارا ہوا ساقی کی چشم ناز کا
اس لئے عادلؔ کو شیشے کی پری اچھی لگی
محفوظ الرحمان عادل
زندگی کو حوصلہ دینے کے خاطر
خواہشوں کو ریزہ ریزہ چن رہا ہوں
محفوظ الرحمان عادل
اگر خموش رہوں میں تو تو ہی سب کچھ ہے
جو کچھ کہا تو ترا حسن ہو گیا محدود
ماہر القادری
عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے
ماہر القادری
اک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا
سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی
ماہر القادری

