تری عقل گم تجھے کر نہ دے رہ زندگی میں سنبھل کے چل
تو گماں کی حد نہ تلاش کر کہ کہیں بھی حد گماں نہیں
محفوظ الرحمان عادل
تمہارے بخشے ہوئے آنسوؤں کے قطروں سے
شب فراق میں تارے سجا رہا ہوں میں
محفوظ الرحمان عادل
تمہاری مست آنکھوں کا تصور
مری توبہ سے ٹکرانے لگا ہے
محفوظ الرحمان عادل
ان سفینوں کی تباہی میں ہے عبرت کا سبق
جو کنارے تک پہنچ کر نذر طوفاں ہو گئے
محفوظ الرحمان عادل
اسی نے بخشا ہے مجھ کو شعور جینے کا
جو مشکلوں کی گھڑی بار بار آئی ہے
محفوظ الرحمان عادل
وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو
حوصلے مشکلوں میں پلتے ہیں
محفوظ الرحمان عادل
وہ جگا کر ہم کو سب خوش منظری لے جائے گا
خواب کیا ہے خواب کی تعبیر بھی لے جائے گا
محفوظ الرحمان عادل

