EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تیر و تلوار سے بڑھ کر ہے تری ترچھی نگہ
سیکڑوں عاشقوں کا خون کیے بیٹھی ہے

ماہ لقا چنداؔ




ان کو آنکھیں دکھا دے ٹک ساقی
چاہتے ہیں جو بار بار شراب

ماہ لقا چنداؔ




ہر ایک رات کے پہلو سے دن نکلتا ہے
وہ لوگ کیسے سنور جائیں جو تباہ نہیں

ماہ طلعت زاہدی




یاد کے خوش نما جزیروں میں
دل کی آوارگی سی رہتی ہے

ماہ طلعت زاہدی




بادۂ خم خانۂ توحید کا مے نوش ہوں
چور ہوں مستی میں ایسا بے خود و مدہوش ہوں

مہراج سرکشن پرشاد شاد




دل میں جب سے دیکھتا ہے وہ تری تصویر کو
نور برساتا ہے اپنی چشم تر سے آفتاب

مہراج سرکشن پرشاد شاد




فنا ہی کا ہے بقا نام دوسرا انجمؔ
نفس کی آمد و شد موت کا ترانہ ہے

مہاویر پرشاد انجم