گر مرے دل کو چرایا نہیں تو نے ظالم
کھول دے بند ہتھیلی کو دکھا ہاتھوں کو
ماہ لقا چنداؔ
گرچہ گل کی سیج ہو تس پر بھی اڑ جاتی ہے نیند
سر رکھوں قدموں پہ جب تیرے مجھے آتی ہے نیند
ماہ لقا چنداؔ
گل کے ہونے کی توقع پہ جیے بیٹھی ہے
ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے
ماہ لقا چنداؔ
ہم جو شب کو ناگہاں اس شوخ کے پالے پڑے
دل تو جاتا ہی رہا اب جان کے لالے پڑے
ماہ لقا چنداؔ
کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوف خزاں
بلبل اب جان ہتھیلی پہ لیے بیٹھی ہے
ماہ لقا چنداؔ
ناداں سے ایک عمر رہا مجھ کو ربط عشق
دانا سے اب پڑا ہے سروکار دیکھنا
ماہ لقا چنداؔ
سنگ رہ ہوں ایک ٹھوکر کے لیے
تس پہ وہ دامن سنبھال آتا ہے آج
ماہ لقا چنداؔ

