EN हिंदी
ساقی ہے گرچہ بے شمار شراب | شیح شیری
saqi hai garche be-shumar sharab

غزل

ساقی ہے گرچہ بے شمار شراب

ماہ لقا چنداؔ

;

ساقی ہے گرچہ بے شمار شراب
نہیں خوش تر سوائے یار شراب

قتل پر کس کے آج ہوتی ہے
توسن حسن پر سوار شراب

رکھ کرم پر ترے نظر مجرم
نوش کرتے ہیں بے شمار شراب

ان کو آنکھیں دکھا دے ٹک ساقی
چاہتے ہیں جو بار بار شراب

یا علی حشر میں دو چنداؔ کو
آب کوثر کی خوش گوار شراب