ساقی ہے گرچہ بے شمار شراب
نہیں خوش تر سوائے یار شراب
قتل پر کس کے آج ہوتی ہے
توسن حسن پر سوار شراب
رکھ کرم پر ترے نظر مجرم
نوش کرتے ہیں بے شمار شراب
ان کو آنکھیں دکھا دے ٹک ساقی
چاہتے ہیں جو بار بار شراب
یا علی حشر میں دو چنداؔ کو
آب کوثر کی خوش گوار شراب
غزل
ساقی ہے گرچہ بے شمار شراب
ماہ لقا چنداؔ