قیام عمر رواں کا مسافرانہ ہے
جہاں میں رہتے ہیں جب تک کہ آب و دانہ ہے
عبث غرور ہے توفیق خیر پر زاہد
یہ اس کی رحمت و بخشش کا اک بہانہ ہے
مجھے ریاضت و طاعت پر اعتماد نہیں
سر نیاز مرا تیرا آستانہ ہے
فنا ہی کا ہے بقا نام دوسرا انجمؔ
نفس کی آمد و شد موت کا ترانہ ہے

غزل
قیام عمر رواں کا مسافرانہ ہے
مہاویر پرشاد انجم