بادۂ خم خانۂ توحید کا مے نوش ہوں
چور ہوں مستی میں ایسا بے خود و مدہوش ہوں
گرد پھرنے دے مجھے ساقی یہ میرا فرض ہے
مثل ساغر دور میں ہوں بادۂ سرجوش ہوں
طرز خاموشی مری بتلاتی ہے اس راز کو
ہوں نوا سنج حقیقت لاکھ میں خاموش ہوں
دردمند عشق ہو کر ضبط کا خوگر ہوں میں
صورت سیماب ہو کر پیکر خاموش ہوں
کس کی فرقت وصل کس کا اور ہے معشوق کون
شادؔ میں اس عالم تکویں کا ہم آغوش ہوں
غزل
بادۂ خم خانۂ توحید کا مے نوش ہوں
مہراج سرکشن پرشاد شاد