خواب جتنے دیکھنے ہیں آج سارے دیکھ لیں
کیا بھروسہ کل کہاں پاگل ہوا لے جائے گی
آشفتہ چنگیزی
کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں
جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں
آشفتہ چنگیزی
نہ ابتدا کی خبر اور نہ انتہا معلوم
ادھر ادھر سے سنا اور بس اڑا لائے
آشفتہ چنگیزی
پہلے ہی کیا کم تماشے تھے یہاں
پھر نئے منظر اٹھا لایا ہوں میں
آشفتہ چنگیزی
سڑک پہ چلتے ہوئے آنکھیں بند رکھتا ہوں
ترے جمال کا ایسا مزہ پڑا ہے مجھے
آشفتہ چنگیزی
سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے
بچھڑ کے تجھ سے عجب روگ لگ گیا ہے مجھے
آشفتہ چنگیزی
سفر تو پہلے بھی کتنے کیے مگر اس بار
یہ لگ رہا ہے کہ تجھ کو بھی بھول جائیں گے
آشفتہ چنگیزی