EN हिंदी
تم نے لکھا ہے لکھو کیسا ہوں میں | شیح شیری
tumne likkha hai likho kaisa hun main

غزل

تم نے لکھا ہے لکھو کیسا ہوں میں

آشفتہ چنگیزی

;

تم نے لکھا ہے لکھو کیسا ہوں میں
دوستوں کی بھیڑ ہے تنہا ہوں میں

یاسمین و نسترن میرا پتہ
خوشبوؤں کے جسم پر لکھا ہوں میں

پہلے ہی کیا کم تماشے تھے یہاں
پھر نئے منظر اٹھا لایا ہوں میں

پھر وہی موسم پرانے ہو گئے
دن ڈھلے سرگوشیاں سنتا ہوں میں

کون اترتی چڑھتی سانسوں کا امیں
سایۂ دیوار سے لپٹا ہوں میں

تو کبھی اس شہر سے ہو کر گزر
راستوں کے جال میں الجھا ہوں میں

وہ مری خوش فہمیاں سب کیا ہوئیں
جانے کب سے بے ہنر زندہ ہوں میں