EN हिंदी
سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے | شیح شیری
sabhi ko apna samajhta hun kya hua hai mujhe

غزل

سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے

آشفتہ چنگیزی

;

سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے
بچھڑ کے تجھ سے عجب روگ لگ گیا ہے مجھے

جو مڑ کے دیکھا تو ہو جائے گا بدن پتھر
کہانیوں میں سنا تھا سو بھوگنا ہے مجھے

میں تجھ کو بھول نہ پایا یہی غنیمت ہے
یہاں تو اس کا بھی امکان لگ رہا ہے مجھے

میں سرد جنگ کی عادت نہ ڈال پاؤں گا
کوئی محاذ پہ واپس بلا رہا ہے مجھے

سڑک پہ چلتے ہوئے آنکھیں بند رکھتا ہوں
ترے جمال کا ایسا مزہ پڑا ہے مجھے

ابھی تلک تو کوئی واپسی کی راہ نہ تھی
کل ایک راہ گزر کا پتہ لگا ہے مجھے