پتہ کہیں سے ترا اب کے پھر لگا لائے
سہانے خواب نیا مشغلہ اٹھا لائے
لگی تھی آگ تو یہ بھی تو اس کی زد میں تھے
عجیب لوگ ہیں دامن مگر بچا لائے
چلو تو راہ میں کتنے ہی دریا آتے ہیں
مگر یہ کیا کہ انہیں اپنے گھر بہا لائے
تجھے بھلانے کی کوشش میں پھر رہے تھے کہ ہم
کچھ اور ساتھ میں پرچھائیاں لگا لائے
سنا ہے چہروں پہ بکھری پڑی ہیں تحریریں
اڑا کے کتنے ورق دیکھیں اب ہوا لائے
نہ ابتدا کی خبر اور نہ انتہا معلوم
ادھر ادھر سے سنا اور بس اڑا لائے
غزل
پتہ کہیں سے ترا اب کے پھر لگا لائے
آشفتہ چنگیزی