EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے

آنس معین




یاد ہے آنسؔ پہلے تم خود بکھرے تھے
آئینے نے تم سے بکھرنا سیکھا تھا

آنس معین




یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا
نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہوگا

آنس معین




یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی

آنس معین




دیکھ دامن گیر محشر میں ترے ہوئیں گے ہم
خوں ہمارا اپنے دامن سے نہ اے قاتل چھڑا

عارف الدین عاجز




آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج
کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں

آشفتہ چنگیزی




آشفتہؔ اب اس شخص سے کیا خاک نباہیں
جو بات سمجھتا ہی نہیں دل کی زباں کی

آشفتہ چنگیزی